Skip to main content

Nide-e Haq: Turkey- Israel taluqat aek nayi shuruaat; 5th september, 2022

 

Akhbar-e-Mashriq, Delhi


Akhbar-e-Mashriq, Kolkata


Pindar- Patna


Sahafat

Akhbar-e-Mashriq- Delhi








۔اسرائیل تعلقات، ایک نئی شروعاتندائے حق

اسد مرزا
حال ہی میں اسرائیل اور ترکی دونوں کی طرف سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ ان ممالک کی قیادت اپنے دوطرفہ سفارتی تعلقات کو دوبارہ
فعال بنانے پر غور کر رہی ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں یہ علاقائی ہم آہنگی کی سمت میں ایک اور قدم ہے، جب کہ ترکی کے لیے اس کا مقصد بنیادی طور پر ترکیے کی اقتصادی پریشانیوں اور علاقائی مفادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئیملک کو آگے بڑھانا ہے۔
17 اگست کو دونوں ممالک کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ سفیروں کا تبادلہ کریں گے اور دو طرفہ سفارتی تعلقات کو معمول پر لائیں گے۔یہ اعلان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ ترکیے کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد آیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ترکی کی قیادت نے محسوس کیا ہے کہ اس کی ترجیح اندرونی اور قریبی گھریلو مسائل جیسے کہ ملک کی اقتصادی مشکلات، کردوں کا مسئلہ اور قبرص اور یونان کے ساتھ تعلقات پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہونی چاہیے۔ بہتر علاقائی روابط ملک کی معاشی مشکلات اور ووٹرز کی توقعات کو بہتر طور پر پورا کرنے کے لیے سیاسی قیادت کو زیادہ وقت اور توانائی فراہم کرسکتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 2018 میں اس وقت خراب ہوئے تھے جب ترکی نے انقرہ سے اسرائیلی سفیر کو بے دخل کر دیا تھا،یہ قدم ٹرمپ انتظامیہ کے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے دوران غزہ میں 60 فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد لیا گیا تھا۔ درحقیقت، فلسطینی گروہوں، خاص طور پر حماس کے لیے ترکیے کی حمایت اور غزہ کی پٹی اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے اسرائیلی الحاق پر اس کے اعتراض دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کا سبب بنے تھے۔تعلقات میں کچھ بہتری 10 سال سے زیادہ کشیدگی کے بعد آئی ہے۔ رواں سال میں مارچ میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے ترکی کے دورے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے دوروں نے تعلقات کو گرمانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
ترکی کی مجبوریاں :۔دراصل ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ترکی کی خارجہ پالیسیوں کی خامیوں کو بہتر طور پر سمجھ لیا ہے اور وہ جان چکے ہیں کہ مصر، اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ دیگر علاقائی ممالک کے خلاف اس کا طرزِ عمل اور موقف خود اس کے یعنی ترکی کے خلاف جارہا ہے۔ اس موقف نے اسے خطے میں تنہا کر دیا ہے اور اس کے لیے اقتصادی طور پر پریشانیاں بھی بڑھا دی ہیں۔
دیگر نام نہاد اسلامی ممالک کے خلاف ترکی کے غیر یقینی موقف کی وجہ بنیادی طو دشمنی کی ایک بنیادی وجہ عالم اسلام کے رہبر کے خطاب کے دعویٰ کا مقابلہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترکیے نے مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی یکے بعد دیگرے حکومتوں کو اسلامی دنیا کی قیادت کے بارے میں اپنے دعوے کے خلاف موقف اپنانے اور خطے میں اسے ایک جابر حکومت کے طورپر پیش کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔تاریخی طور پر یہ ترکیے ہی تھا، جس نے سعودی عرب میں مسلم دنیا کے دو مقدس ترین مقامات کی دیکھ بھال کی، بعد میں سعودی عرب میں تیل دریافت ہوا، جس نے اس ملک کی قسمت ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ اس نئی دولت نے سعودی بادشاہوں کو اسلامی دنیا کے رہنما ہونے کا دعویٰ کرنے پر بھی اکسایا۔
ظاہر ہے کہ ترکی نے اس تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال نے اسے امت مسلمہ سے متعلق کئی مسائل پر اپنے موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ ترکی نے ان علاقائی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے علاقائی استحکام کو کمزور کرنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ اس کے بدلے میں ان ریاستوں نے ترکیے پر ایسی روش اور پالیسیاں اپنانے کا الزام لگایا، جس کی وجہ سے خطے اور نام نہاد اسلامی ریاستوں کے درمیان تصادم میں اضافہ ہوا۔
جوابی کارروائی کے طور پر ان ممالک نے قبرص اور یونان دونوں کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں ۔ جو کہ تاریخی طور پر بحیرۂ روم کے علاقے میں ترکیے کے سب سے بڑے دشمن رہے ہیں۔ اسی دوران ترکیے نے قطر کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ قطر ایک ایسا ملک ہے جسے 2017 میں خلیجی تنظیموں سے اس وقت بے دخل کردیا گیا تھا، جب متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر اور بحرین نے اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں نافذ کردی تھیں۔اس کے علاوہ اگلے سال رائے دہندگان کا سامنا کرنے سے پہلے، اردگان نے اسرائیل سے اس امید پر بھی ہاتھ ملایا ہے کہ شاید وہ اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات کی بنا پر ترکیے کی اقتصادی حالت کو بدل سکیں، جسے ترک شہریوں کے لیے بہتر اقتصادی ماحول میں تبدیل کیا جا سکے۔
اسرائیل کا گیم پلان :۔حال ہی میں اسرائیل نے عرب اور غیر عرب دونوں طرح کے علاقائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کی کوششیں تیز کی ہیں اور اس کی تازہ مثال ابراہم معاہدہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ ترکیے کو علاقائی طور پر اورفلسطین میں خاص طور سے غزہ میں بھی ایک اہم عنصر سمجھتا ہے، کیونکہ حماس نے استنبول میں ایک دفتر کھولا ہے اور پچھلے 10 سالوں سے وہ وہیں سے اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ۔اس کے علاوہ اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ ترکیے کے ساتھ قریبی تعلقات مؤثر طریقے سے ایران کی انٹیلی جنس نگرانی کرنے کے لیے بھی اس کے حق میں کام کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنی قدرتی گیس یورپ کو بیچنا چاہتا ہے جو کہ 2010 میں اس کے ساحل کے قریب پائی گئی تھی، تو اقتصادی طور پر سب سے زیادہ قابلِ عمل اور معاشی اور جغرافیہ طور پر آسان راستہ ترکیے کے ذریعے ہوگا۔ یہ دونوں ملکوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوسکتی ہے کہ اگر وہ طویل مدت میں، سفارتی اور مالی طور پر، یورپ کے لیے روسی گیس کی سپلائی کو روکنے کے لیے مستقبل کے کسی منصوبے کو کامیاب بنانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ترکی کے ساتھ دشمنی کے دور میں اسرائیل نے قبرص اور یونان دونوں کے ساتھ تعلقات بہتر کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں ان دونوں ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے اقتصادی، سیکورٹی اور عوامی روابط میں اضافہ رونما ہوا۔ دونوں ممالک کو اسرائیلی سیاحوں کی آمد میں خاطر خواہ اضافہ حاصل ہوا، جنہوں نے گزشتہ کئی سالوں سے ترکیے کے ساحلوں پر آنا چھوڑ دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے فوجی تعاون میں بھی اضافہ رونما ہوا اور اس نے ان دونوں ملکوں کی فوجوں کو تربیت دینے کا کام بھی کیا۔
موجودہ صورتحال میں اسرائیل کو ایتھنز اور نکوسیا کے ساتھ بہتر طور پر تعلقات کے ساتھ ترکیے کے ساتھ تعاون کے جغرافیائی اور ممکنہ اقتصادی فوائد میں توازن قائم کرنا ہوگا۔ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ، جنہوں نے اسرائیل ۔ترکی کے تعلقات میں کلیدی کردار ادا کیا، قبرص اور یونان دونوں کو یقین دہانی کراچکے ہیں کہ ترکی کے ساتھ اسرائیل کی نئی پائی جانے والی دوستی کا قبرص اور یونان کے ساتھ موجودہ تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
مجموعی طور پر، کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال ایک ایسے منظر نامے کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں سفارتی، سیاسی اور سیکورٹی تعلقات پس پشت پڑ سکتے ہیں، کیونکہ ترکی اور اسرائیل دونوں کا اصل ہدف اپنے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی معلوم ہے کہ ترکیے اپنے اندرونی سامعین کو مطمئن کرنے کے لیے فلسطینی کارڈ کھیلنا جاری رکھ سکتا ہے اور اس کے لیے تیار بھی لگتا ہے۔باہمی سہولت کی عجیب و غریب دوستی دوسرے علاقائی اتحادوں اور طاقت کے محوروں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے، اور موجودہ صورتحال کی بنیاد پر آزادانہ یا دو طرفہ اقتصادی فائدے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی کوشش کرتے نظر آسکتے ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com


Comments

Popular posts from this blog

What ails the Indian Muslims.

What ails the Indian Muslims. With every election season, community sympathisers, politicians of all hues (except a certain ones with a dominant hue) and the Muslims themselves start to ponder over the economic and social situation of the Muslims in India. Muslims in India numbering 172 million is the majority community besides being the third largest Muslim population in the world, after Malaysia and Indonesia. If 71 years after the independence, we are forced to still ponder over these issues, then it speaks a lot about the real situation of the Muslims in India. But the moot question is who is responsible for this sorry state of affairs of the community, the rulers or Muslims themselves. Data from the 2011 Census of India on educational level by religious community and gender has shown that 42.7% of Muslims in India are illiterate. This is the highest illiteracy rate for any single religious community in the country, while the illiteracy rate for the entire populat

Latest Articles

COVID Vaccine: is it halal or not? https://kashmirvision.in/2021/01/10/covid-vaccine-is-it-halal-or-not/   http://scoopnews.in/det.aspx?q=99969   https://clarionindia.net/covid-vaccine-is-it-halal-or-not/   https://www.therahnuma.com/covid-vaccine-is-it-halal-or-not/   https://english.telugustop.com/covid-vaccine-is-it-halal-or-not-opinion-national-opinion-commentary-latest-news/?amp=yes   https://www.google.co.in/amp/s/latestnews.fresherslive.com/amp/a       https://www.google.co.in/amp/s/kalingatv.com/amp/miscellany/is-covid-vaccine-halal-or-not-what-do-you-say/   https://www.google.co.in/amp/s/www.prokerala.com/news/articles/a1118751.html%3famp=1   https://www.google.co.in/amp/s/www.sentinelassam.com/amp/topheadlines/covid-vaccine-is-it-halal-or-not-520014   https://www.google.co.in/amp/s/tfipost.com/ians-news/covid-vaccine-is-it-halal-or-not-opinion/amp/   http://gawahweekly.com/covid-vaccine-is-it-halal-or-not/   https://theindianawaaz.com/covid-vaccine-is-it-halal-or-not/   Brexi

After 2019, whither Indian Muslims?

After 2019, what? Asad Mirza Since, early morning by when the election trends started pouring in on every TV channel and social media platform. A pall of gloom seems to have descended on every Muslim locality in the country. But the moot question to answer is, are we ourselves responsible for this? The answer to this is, both yes and no. Before the elections a lot of debate was focussed on the tactical voting by Muslims. But the trends seem to belie this. As the trends indicate, in Delhi and Bihar to some extent is some seats of UP, where they were supposed to vote tactically, at the last moment they shifted their allegiance to the Congress and as a result, BJP is leading in all these seats. The trends have also established the fact that India is going to be a, minority hating, democracy hating, anti-secular Hindu Rashtra, where one religion and one perverse ideology is going to dominate the entire nation. The election results have also brought home two stark real